اہلِ ہند کے گیت کی طرح رباعی کا آغاز بھی اصلاً گائے جانے والے کلام کی حیثیت سے ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا ایک نام ترانہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں اسے قول بھی کہا جاتا رہا ہے جس کی نسبت یہ بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ قوالی سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ گمان ہے کہ اخلاقی، عارفانہ اور فلسفیانہ رباعیات ہی کی گائیکی رفتہ رفتہ ترقی پا کر موجودہ قوالی کی صورت کو پہنچی ہے۔
دنیا بھر کی غنائیہ شاعری کے اوزان میں عام شاعری سے کہیں زیادہ لچک پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ گائیکی میں مختلف سروں اور تالوں کا حق ادا کرنے کے لیے الفاظ کا زیر و بم غیرمعمولی تنوع کا حامل ہونا چاہیے۔ رباعی میں یہ موسیقائی تنوع ہمیں اس کے چوبیس اوزان کی صورت میں ملتا ہے۔ یعنی غزل یا نظم کی عمومی اصناف کے برعکس، جن میں شاعر اکا دکا مزاحف صورتوں کے سوا زیادہ تر ایک ہی پیمانے پر شعر کہتا چلا جاتا ہے، زباعی کے مصرعے چوبیس مختلف پیمانوں پر آ سکتے ہیں۔
رباعی چار مصرعوں کی نظم ہے۔ اس لیے ایک رباعی میں زیادہ سے زیادہ چار مختلف اوزان لائے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لازم ہے۔ لازم فقط اس قدر ہے کہ چاروں مصرعے رباعی کے چوبیس مجوزہ اوزان میں سے کسی ایک پر ضرور پورے بیٹھیں۔ مولانا جامیؔ نے چھ رباعیاں کہی ہیں جن میں یہ چوبیس اوزان پورے کر کے دکھائے ہیں۔ یعنی ہر رباعی کے چار مصرعے ایک ایک وزن میں اور اس طرح کل چھ رباعیاں۔ چونکہ وہ رباعیات فارسی ہیں اس لیے میں یہاں نقل کر کے آپ کا اور اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اگر کبھی ایسا کام اردو میں ہوا تو ضرور پیش کروں گا۔
بالفعل میں ایک رباعی اپنی پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں میں نے چوبیس مذکورہ اوزانِ رباعی کا ایک نہایت بدیع اور شاندار قاعدہ موزوں کیا ہے۔ یہ قاعدہ مغربی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے ایک شاعر، عروضی اور ریاضی دان جناب امیر الاسلام شرقی سے یادگار ہے۔ رباعی عام طور پر بحرِ ہزج سے نکالی جاتی ہے اور دس ارکان کے ہیر پھیر سے چوبیس اوزان حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس روایتی طریقے کی پیچیدگی ضرب المثل ہے۔ اسی وجہ سے لوگ رباعی سے متنفر ہوتے ہیں اور اس کے اوزان کو نہایت مشکل جانتے ہیں۔ یعنی اس قدر مشکل کہ غالبؔ جیسا ایران پرست استاد بھی ایران ہی کی ایجاد کردہ اس صنف کے اوزان میں دھوکا کھا کر ساقط الوزن رباعی کہہ گیا ہے۔ لیکن شرقی صاحب کو اللہ جزا دے۔ انھوں نے رباعی کے عین وہی چوبیس اوزان جو معروف ہیں بحرِ ہزج کی بجائے بحرِ رجز سے استخراج فرمائے ہیں اور اس عقدے کو اتنا سہل کر دیا ہے جس سے زیادہ ہو نہیں سکتا۔ تکنیکی تفصیلات پھر کبھی پیش کروں گا۔ فی الحال، ملاحظہ ہو اوزانِ رباعی کا یہ قاعدہ رباعی ہی کی شکل میں:
فَع مُفْتَعِلُن مَفَاعِلُن مَفْعُولُن
آغاز ہمیشہ فع سے ہوتی ہے یہ دُھن
آئے گا مفاعلن فقط تیسری جا
ورنہ تینوں جا باقی دو میں سے چُن
وضاحت کے لیے میں تھوڑی سی تفصیل عرض کر دیتا ہوں۔
فع مفتعلن مفاعلن مفعولن
یہ چار ارکان ہیں جن سے رباعی کی عمارت چنی جاتی ہے۔ ہر رباعی میں چار ہی ارکان ہوں گے۔ نہ کم نہ زیادہ۔
آغاز ہمیشہ فع سے ہو تی ہے یہ دھن
ترانہ یعنی رباعی کی دھن کا آغاز ہمیشہ فع سے ہو گا۔ یعنی ہر مصرعے کے چار ارکان میں سے پہلا لازماً فع ہو گا۔
آئے گا مفاعلن فقط تیسری جا
مفاعلن صرف تیسرے رکن کے طور پر آ سکتا ہے۔ پہلا تو جیسے ہم نے عرض کیا ہو گا ہی فع۔ مگر باقی تین ارکان میں بھی مفاعلن صرف تیسرے رکن کے طور پر آئے گا۔ دوسرے یا چوتھے کی جگہ نہیں آ سکتا۔
ورنہ تینوں جا باقی دو میں سے چن
اگر مفاعلن تیسری جگہ آ گیا تو باقی دونوں جگہ ورنہ فع کے بعد باقی تینوں جگہ مفتعلن اور مفعولن میں سے کوئی بھی رکن حسبِ ضرورت چن دیا جائے گا۔
تو قاعدہ یہ ہوا کہ فع رباعی کے چار ارکان میں ہمیشہ سب سے پہلا ہو گا۔ باقی تینوں جگہ پر مفتعلن اور مفعولن میں سے کچھ بھی آ سکتا ہے۔ اگر مفاعلن لانا مقصود ہے تو وہ صرف تیسرے رکن کے طور پر آ سکتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ چوبیس اوزان اس قاعدے سے کیسے پورے ہوتے ہیں۔
- فع مفتعلن مفتعلن مفتعلن
- فع مفتعلن مفتعلن مفعولن
- فع مفتعلن مفعولن مفتعلن
- فع مفتعلن مفعولن مفعولن
- فع مفعولن مفعولن مفعولن
- فع مفعولن مفعولن مفتعلن
- فع مفعولن مفتعلن مفعولن
- فع مفعولن مفتعلن مفتعلن
- فع مفعولن مفاعلن مفعولن
- فع مفعولن مفاعلن مفتعلن
- فع مفتعلن مفاعلن مفتعلن
- فع مفتعلن مفاعلن مفعولن
یہ ہو گئے بارہ اوزان۔ اب میں سے ہر ایک کے آخر میں نون سے پہلے الف کا اضافہ کر دیجیے۔ یعنی آخری مفعولن کی جگہ مفعولان اور مفتعلن کی جگہ مفتعلان۔ اس قاعدے سے سخن گو احباب بخوبی واقف ہیں۔ اسے مختلف صورتوں میں تسبیغ، اسباغ، اذالہ اور خدا جانے کیا کیا کہا جاتا ہے (ہم جلد اس بحث کو بھی اردو عروض کے قارئین کے لیے سہل کر کے پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں) مگر سادہ بات یہ ہے کہ مصرع کے آخر میں عموماً مجزوم کی جگہ موقوف اور موقوف کی بجائے مجزوم آ سکتا ہے۔ اس سے بھی سادہ لفظوں میں کہا جائے تو یوں ہے کہ مصرع کے آخر میں ساکن حروف کا اضافہ جائز ہے۔ مفعولن کو مفعولان اور مفتعلن کو مفتعلان کر کے ہم نے ایک ایک ساکن ہی کا اضافہ کیا ہے۔ اس طرح مندرجہ بالا بارہ اوزان کے مقابل بارہ اوزان اور دستیاب ہو جائیں گے جن میں سے ہر ایک آپ کی پوری رباعی یا کسی ایک مصرعے کے لیے پیمانے کا کام دے سکتا ہے۔
تو صاحبو، یہ ہے اوزانِ رباعی کی کل بحث۔ عملی نمونے کے طور پر ہم مذکورہ بالا رباعی ہی کی تقطیع کر کے دیکھتے ہیں۔
فع مفتعلن مفاعلن مفعولن
یہ تو سیدھا سیدھا ایک وزن ہے۔
آغاز ہمیشہ فع سے ہوتی ہے یہ دھن
آ + غاز ہمے + شَ فع سِ ہو + تی ہِ یِ دھن
فع + مفتعلن + مفاعلن + مفتعلن
آئے گا مفاعلن فقط تیسری جا
آ + اے گَ مفا + علن فقط + تیسرِ جا
فع + مفتعلن + مفاعلن + مفتعلن
ورنہ تینوں جا باقی دو میں سے چن
ور + نہ تینوں + جا باقی + دو مِ سِ چن
فع + مفعولن – مفعولن – مفتعلن
ٹھیک؟
پنجابی کا ایک محاورہ ہے۔ پانی میں مدھانی مارنا۔ سو یوں تو جب تک چاہیں بحرِ رباعی میں مدھانی چلاتے رہیں لیکن اگر رباعی کہنے کا قصد ہے تو یہ اس کا آسان ترین طریقہ ہے جو امید ہے آپ کی سمجھ میں آ گیا ہو گا۔ اگر نہیں آیا تو سو بسم اللہ۔ ضرور پوچھیے۔ اور اگر اس سے بھی سہل طریقے کی تلاش ہے تو لعنت بھیجیے رباعی پر۔ فی زماننا اس سے زیادہ ثواب کا کام یوں بھی کوئی نہیں۔